* اپنی پلکوں پہ کسی شام سجا لو مجھ کو *
اپنی پلکوں پہ کسی شام سجا لو مجھ کو
میں اگر روٹھ گیا ہوں تو منا لو مجھ کو
سوچ کے گہرے سمندر سے نکالو مجھ کو
دم گھٹاجائے ہے اب کوئی بچا لو مجھ کو
میں اگر پھول نہیں ہوں تو شرارہ بھی نہیں
اپنے دامن میں بلا خوف چھپا لو مجھ کو
اب تو لے دے کے تمہیں ایک سہارا ہو مرا
چھوڑ کر جائو نہ یادوں کے اُجالو مجھ کو
لب پہ آیا جو کوئی حرفِ گلہ تو کہنا
شمع کی طرح سرِ بزم جلالو مجھ کو
کل یہی وقت کہیں میرا طلب گار نہ ہو
عہدِ حاضرکی امانت ہوں سنبھالو مجھ کو
آئوں نیچے تو سلامت نہ رہے میرا وجود
اتنا اونچا مرے یارو نہ اُچھالو مجھ کو
شکوۂ درد ہی کرتے رہے ہم لوگ حفیظؔ
درد کہتا رہا سنگیت میں ڈھالو مجھ کو
٭٭٭
|