* معاذ اللہ معاذ اللہ یہ دورِ دلآزا *
معاذ اللہ معاذ اللہ یہ دورِ دلآزاری
نہ دلجوئی نہ دلداری نہ ہمدردی نہ غمخواری
نہ جانے کس طرح ہوگا ہمارے درد کا درماں
بڑھے جاتے ہیں چارہ گر بڑھی جاتی ہے بیماری
خوشامد وہ بڑا فن ہے جو سب کو رام کرتا ہے
ہر اک دربار اس کا ہے، جس کا راگ درباری
ہمارے درمیاں قائم رہے گی دوستی کیوں کر
مرا شیوہ محبت ہے ترا شیوہ ستم کاری
محبت کرنے والے مکر و فن سے دور رہتے ہیں
محبت کرنے والوں کو نہیں آتی ادا کاری
نہ سیکھی مصلحت ہم نے کہ ہم حق بین و حق گو ہیں
گراں ہے اہلِ دُنیا پر ہماری راست گفتاری
وہاں دعویٰ کریں گے کس پر ہم اپنے خونِ ناحق کا
عدالت بھی جہاں کرتی ہے قاتل کی طرفداری
حفیظؔ اہلِ عرب کو کیا سنائوں میں کلام اپنا
وہی سکّہ یہاں چلتا ہے جو سکّہ ہے بازاری
٭٭٭
|