* کچھ اس کے سنور جانے کی تدبیر نہیں ہ *
کچھ اس کے سنور جانے کی تدبیر نہیں ہے
دُنیا ہے تری زلفِ گرہ گیر نہیں ہے
کیوں تیری نوازش نہیں اب دیدہ و دل پر
کیا اب ترے ترکش میں کوئی تیر نہیں ہے
ٹوکیں گے تجھے ہم ترے اندازِ غلط پر
میخانہ ہے ساقی تری جاگیر نہیں ہے
ہر طرح کی پابندی ہے میرے لئے لیکن
اُس شوخ کی خاطر کوئی زنجیر نہیں ہے
گرکوئی گلہ ہے تو حفیظؔ اپنے عمل سے
ہونٹوں پہ مرے شکوۂ تقدیر نہیں ہے
***** |