* آوارہ مزاجی کا الزام نہیں لیں گے *
آوارہ مزاجی کا الزام نہیں لیں گے
ہم چھائوں میں زلفوں کی آرام نہیں لیں گے
ہو دل کا لہو جس میں وہ جام نہیں لیں گے
انعام یہی ہے تو انعام نہیں لیں گے
قاتل کے گھرانے سے ان کا بھی تعلق ہے
کھل کر کبھی قاتل کا وہ نام نہیں لیں گے
یا سب کو پلا ساقی، یا ہم کو بھی پیاسا رکھ
تنہا ترے ہاتھوں سے ہم جام نہیں لیں گے
اِس نام کی نسبت سے کھائے ہیں فریب اتنے
بھولے سے محبت کا اب نام نہیں لیں گے
روئیں گے حفیظؔ اپنی محرومی ٔ قسمت پر
گو قوتِ بازو سے جو کام نہیں لیں گے
****** |