* اِدھر بھی تباہی اُدھر بھی تباہی *
اِدھر بھی تباہی اُدھر بھی تباہی
کہاں جائیں آخر محبت کے راہی
مرا عشق کیا ہے تری دل نوازی
ترا حسن کیا ہے مری خوش نگاہی
وہی حُسن والے وہی ناز و غمزہ
وہی اہلِ دل ہیں وہی کج کلاہی
نہ کوئی تردد نہ کوئی تفکر
فقیری میں ہم کر گئے بادشاہی
تری جستجو میں کہاں آگئے ہم
نہ جادہ نہ منزل، نہ رہبر نہ راہی
ابھی نا مکمل ہے جشنِ چراغاں
کہیں روشنی ہے کہیں ہے سیاہی
حفیظؔ ان کے لب پر ہے کچھ اور لیکن
نظر اور کچھ دے رہی ہے گواہی
****** |