* ہم ہی میں تھی نہ کوئی بات، یاد نہ تم & *
ہم ہی میں تھی نہ کوئی بات، یاد نہ تم کو آسکے
تم نے ہمیں بھلا دیا، ہم نہ تمہیں بھلا سکے
ہوش میں آچکے تھے ہم ، جوش میں آچکے تھے ہم
بزم کا رنگ دیکھ کر سر نہ مگر اٹھا سکے
رونق بزم بن گئے، لب پہ حکایتیں رہیں
دل میں شکایتیں رہیں، لب نہ مگر ہلا سکے
عجز سے اور بڑھ گئی برہمی مزاج دوست
اب وہ کیا کرے علاجِ دوست جس کی سمجھ میں آسکے
اہلِ زباں تو ہیں بہت، کوئی نہیں ہے اہل دل
کون تیری طرح حفیظؔ درد کے گیت گا سکے
٭٭٭
|