* بھائیو! آئو ذرا آج اِدھر کان دھرو *
(حیرت فرخ آبادی(رانچی)
بھائیو! آئو ذرا آج اِدھر کان دھرو
آج حیرت ہے مخاطب ذرا اس کی بھی سنو
آج اک تلخ حقیقت کا بیاں کرتا ہوں
عرض ہے اتنی کہ اس پر بھی ذرا غور کرو
عظمتِ ہند کے ماضی کا جب آتا ہے خیال
فخر سے پھول کے سینہ مِرا تن جاتا ہے
اور فسادات پہ جب آج کے جاتی ہے نگاہ
شرم سے سر مرا دھرتی میں گڑا جاتا ہے
ہم نے بھگوان کی عزت ہی لُٹا کے رکھ دی
ہم نے اللہ کی عظمت ہی گھٹا کے رکھ دی
نام پر دھرم کے بدتر ہوئے حیوانوں سے
ہم سگے بھائی ہیں یہ بات بھلا کے رکھ دی
٭٭٭
|