* ہونٹوں پہ ترے آج تبّسم بھی نہیں تھ *
ہونٹوں پہ ترے آج تبّسم بھی نہیں تھا
پہلے کی طرح طرزِ تکلّم بھی نہیں تھا
مسحور وہ کردیتا مجھے اپنی نوا سے
آواز میں اُس کی وہ ترنّم بھی نہیں تھا
افسوس کہ اِس حال میں ڈوبی مری کشتی
دریا میں بہت تیز تلاطم بھی نہیں تھا
بچوں کو تسلّی تھی کہ ہے چولہے پہ ہا نڈی
گھر میں مگر اک دانۂ گندم بھی نہیں تھا
چمکے وہ جو خو رشید کے تھے حاشیہ بردار
میں حلقہ بگوشِ مہہ و انجم بھی نہیں تھا
کیا خاک سکوں ملتا وہاں تشنہ لبوں کو
میخانے میں ساغر بھی نہ تھے خم بھی نہیں تھا
*** |