* ِچپکے رہے زمین سے ہم جھیل کی طرح *
چپکے رہے زمین سے ہم جھیل کی طرح
دریائے موجزن نہ بنے نیل کی طرح
اے آسمان تیرے چراغوں کو کیا ہوا؟
سورج بھی ٹمٹماتا ہے قندیل کی طرح
مرگھٹ بنی ہوئی ہیں سیاست کی منڈیاں
منڈلا رہے ہیں لوگ جہاں چیل کی طرح
پانے کی اُن سے کیسے توقع رکھے کوئی
پھیلے ہوئے جو ہاتھ ہیں زنبیل کی طرح
یوں دیجئے مثال کہ واضح مثال ہو
تمثیل پیش کیجئے تمثیل کی طرح
کیا بھائی شر سے بھائی کے محفوظ رہ سکے
بن جائے اپنا بھائی جو قابیل کی طرح
صابرؔ مری زبان ترازو ہے شعر کی
مفعول فاعلات مفاعیل کی طرح
*** |