* توقعات سے باہر نکل سکے نہ کبھی *
غزل
توقعات سے باہر نکل سکے نہ کبھی
خلافِ راہ کسی سمت چل سکے نہ کبھی
بڑے نفیس بتوں کے بھی درمیاں میں رہے
خوشی ہے اس کی کہ پتھر میں ڈھل سکے نہ کبھی
حباب سینۂ دریا میں خیمہ زن بھی ہوئے
مگر نشیبی حقیقت بدل سکے نہ کبھی
بدل بدل کے بھی اندازِ زندگی دیکھا
نصیب میں تھے جو چکّر وہ ٹل سکے نہ کبھی
شکار ہونا مقدر تھا ہم شکار رہے
شریکِ راہ تھی پھسلن سنبھل سکے نہ کبھی
معاونت میں رہے میرے ٹھوس استدلال
کہ آگ بھبھکی گئی اور جل سکے نہ کبھی
ثمر یہ اُن کی ہوئی کس طرح کی نشو و نما
شجر تو بن گئے لیکن وہ پھل سکے نہ کبھی
حلیم ثمر آروی
H-92, Paharpur Road, Matiaburj
Kolkata-700024
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|