غزل
غمِ حیات کے ہر امتحان سے گزرے
ورق ورق کی طرح داستان سے گزرے
خیال و فکر کے کتنے نشان سے گزرے
کبھی زمیں تو کبھی آسمان سے گزرے
قرار کرکے نہ آنا تمہاری فطرت ہے
نہ جانے کتنے مگر ہم گمان سے گزرے
نظر جھکا کے وہ ہولے سے مسکرا دینا
تری ادا ہی سہی ، ہم تو جان سے گزرے
فریب کھانے کا کچھ یوں بھی شوق ہے مجھ کو
ہیں دوست میرے بھی کچھ مہربان سے گزرے
جنونِ عشق میں سجدے کا ہوش کھو بیٹھے
سفر میں بارہا یوں تو اذان سے گزرے
بنا ہے سنگِ گراں ، سنگِ راہ سے آتش
زمانے جانے کئی درمیان سے گزرے
حسن آتش چاپدانوی
Champdani Bazar, Po. Champdani
Hooghly-712222
Mob: 9681110813 / 3326322916
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………