غزل
حسن آتش ؔ چاپدانوی
اپنی ہستی کو وفا کے نام دیکھو کرگیا،میں مرگیا
بے وفائی کا مگر الزام میرے سر گیا، میں مرگیا
شب کی تاریکی تھی ہر سو او ر میں خائف نہ تھا،نہ فکر تھی
دیکھ کر دن کا اُجالا آج لیکن ڈ ر گیا، میں مرگیا
ایک ہی پتھر اُچھالا تھا کسی نے بھیڑ میں ، تقصیر سے
تھا شناسا سر کا میرے وہ مرے ہی سرگیا،میں مرگیا
وسعتوں میں آسماں کے اُڑنے سے مجبور ہوں،معذور ہوں
میری آزادی کے بدلے میں مر ا شہپرگیا،میں مرگیا
ساعتوں کا تھا سمندر، وقت کا گرداب تھا،ہستی بھی تھی
زیست کے مدوجزر میں صبر کا لنگر گیا،میں مرگیا
مدتوں پہلے ہوا تھا رقص اک شیطان کا، حیوان کا
میری نظروں سے نہ اب تک خونچکاں منظرگیا،میں مرگیا
نوکِ خامہ کرتی نہ تشنہ مری فکرِ معاش،آتش ؔکہ کاش
فکروفن کا اور تخیل کا مر ا جوہر گیا،میں مرگیا
**************