* جینے پہ تری چاہ کا الزام بہت ہے *
غزل
جینے پہ تری چاہ کا الزام بہت ہے
دل بن کے دھڑک جاے ترا نام بہت ہے
دنیا کی ہوس ہے نہ زر و مال کی چاہت
دل ، دل سے ملے بس یہی انعام بہت ہے
کیوں قرب کی گھڑیوں میں تھی بے نام اداسی
تنہائی میں اب کیوں ہمیں آرام بہت ہے
آنسو جو بچھڑنے کی سزا جھیل گیا تھا
پلکوں پہ لرزتا وہ سر شام بہت ہے
دل سے کوئی آنکھوں تک اتر آے تو جانوں
جھکتی ہوئی پلکوں کا یہ پیغام بہت ہے
فرخ ہی پہ موقوف نہیں آج وطن میں
جو شخص بھی اچھا ہے وہ بدنام بہت ہے
٭
|