* روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام *
روشن جمال
٭…………حسرت موہانی
روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام
دھکا ہوا ہے آتش گل سے چمن تمام
حیرت غرور حسن سے شوخی سے اضطراب
دل نے بھی تیرے سیکھ لئے ہیں چلن تمام
اللہ ری جسم یار کی خوبی کہ خود بخود
رنگینیوں میں ڈوب گیا پیر ہن تمام
دل خون ہو چکا ہے جگر ہو چکا ہے خاک
باقی ہوں میں بھی کرائے تیغ زن تمام
دیکھو تو چشم یار کی جادو نگاہیاں
بے ہوش اک نظر میں کوئی انجمن تمام
ہے ناز حسن سے جو فروزاں جبیں یار
لبزیز آب نور ہے چاہ ذقن تمام
نشو و نما سبزہ و گل سے بہار میں
شادابیوں نے گھیر لیا چمن تمام
اس نازنیں نے جب سے کیا ہے وہاں قیام
گلزار بن گئی ہے زمین دکن تمام
اچھا ہے اہل جور کئے جائیں سختیاں
پہلے گی یوں ہی شورش حب وطن تمام
سمجھتے ہیں اہل مشرق کو شاید قریب مرگ
مغرب کے یوں ہیں جمع یہ زاع و زغن تمام
شرینی نسیم ہے سوز و گداز میر
حسرت ترے سخن پہ لطف سخن تمام
٭٭٭
|