* پھر بھی ہے تم کو مسیحائی کا دعویٰ د *
غزل
٭……فضل الحسن حسرت موہانی
پھر بھی ہے تم کو مسیحائی کا دعویٰ دیکھو
مجھ کو دیکھو مرے مرنے کی تمنا دیکھو
جرمِ نظّارہ پہ کون اتنی خوشامد کرتا
اب بھی وہ روٹھے ہیں لو اور تماشا دیکھو
دو ہی دن میں وہ بات ہے نہ وہ چاہ نہ پیار
ہم نے پہلے ہی یہ تم سے نہ کہا تھا دیکھو
ہم نہ کہتے تھے بناوٹ سے ہے ساراغصّہ
ہنس کے لو پھر وہ انہوں نے ہمیں دیکھا دیکھو
مستیٔ حُسن سے اپنی بھی نہیں تم کو خبر
کیا سنو عرض مِری حال مِرا کیا دیکھو
گھر سے ہر وقت نکل آتے ہو کھولے ہوئے بال
شام دیکھو نہ مِری جان سویرا دیکھو
خانۂ جاں میں نمودار ہے اک پیکرِ نور
حسرتو آئو رُخِ یار کا جلوہ دیکھو
سامنے سب کے مناسب نہیں ہم پر یہ عتاب
سر سے ڈھل جائے نہ غصّہ میں دو پٹا دیکھو
مرمِٹے ہم تو کبھی یاد بھی تم نے نہ کیا
اب محبت کا نہ کرنا کبھی دعویٰ دیکھو
دوستو ترکِ محبت کی نصیحت ہے فضول
اور نہ مانو تو دلِ زار کو سمجھا دیکھو
سر کہیں ، بال کہیں، ہاتھ کہیں، پائوں کہیں
ان کا سونا بھی ہے کس شان کا سونا دیکھو
اب وہ شوخی سے کہتے ہیں ستمگر ہیں جو ہم
دل کسی اور سے کچھ روز بہلا دیکھو
ہوس وید مٹی ہے نہ ملے گی حسرتؔ
دیکھنے کے لئے چاہو انہیں جتنا دیکھو
****** |