* بھُلا تا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آ *
غزل
٭……فضل الحسن حسرت موہانی
بھُلا تا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں
الٰہی ترکِ الفت پر وہ کیونکر یاد آتے ہیں
نہ چھیڑاے ہم نشیں کیفیتِ صہبا کے افسانے
شرابِ بے خودی کے مجھ کو ساغر یاد آتے ہیں
رہا کرتے ہیں قیدِ ہوش مہیں اے وائے ناکامی
وہ دشتِ خود فراموشی کے چکّر یاد آتے ہیں
نہیں آتی تو یاد اُن کی مہینوں بھر نہیں آتی
مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں
حقیقت کھل گئی حسرتؔ ترے ترکِ محبت کی
تجھے تو اب وہ پہلے سے بھی بڑھ کر یاد کرتے ہیں
***** |