* یاد ہیں سارے وہ عیشِ با فراغت کے مز *
غزل
٭……فضل الحسن حسرت موہانی
یاد ہیں سارے وہ عیشِ با فراغت کے مزے
دل ابھی بھولا نہیں آغازِ الفت کے مزے
وہ سراپا ناز تھا بیگانہ رسمِ وفا!
اور مجھے حاصل تھے لطفِ بے نہایت کے مزے
حُسن سے اپنے وہ غافل تھا میں اپنے عشق سے
اب کہاں سے لائوں وہ نا واقفیت کے مزے
میری جانب سے نگاہِ شوخ کی گستاخیاں
یار کی جانب سے آغازِ شرارت کے مزے
یاد ہیں وہ حُسن و الفت کی نراہی شوخیاں
التماسِ عذر و تمہیدِ شکایت کے مزے
صحتیں لاکھوں مِری بیماری غم پر نثار
جس میں اُٹھے بارہا ان کی عیادت کے مزے
***** |