غزل
ڈاکٹر کلیم عاجز ؔکے شعر کے حوالے سے۔۔دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ
کوئی داغ۔تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
اُکھڑے ہوئے لہجے میں جو دن رات کرو ہو
کیا بات ہے سیدھی نہ کوئی بات کرو ہو
رُخ ہم سے برابر نہیں کرتے ہو کوئی پل
غیروں کی تو ہنس ہنس کے مدارات کرو ہو
بھر پو ُر جوانی میں خدا یاد نہ آیا
اب کیا ہے مسلسل جو مناجات کرو ہو
میں نے تو گلہ تم سے کیا ہے ،نہ کریں گے
تم کس لئے اوروں سے شکایات کرو ہو
خوشیاں تو لٹاتے ہو شب و روز عدُو پر
اور مجھ کو ہی آمادہء صدمات کرو ہو
بے وقت کی زحمت نہ کرو، جاؤ، ہٹو بھی
اب کس لئے ہم پہ یہ عنایات کرو ہو
عاجزؔ کی کی زمیں پر یہ غزل خوب نہیں ہے
کچھ اور کرو کیوں یہ خرافات کرو ہو
وہ جا بھی چکے اپنے سفر پر اے عظیم ؔ اب
کیا فائدہ اشکوں کی جو برسات کرو ہو
٭