* لیتے ہی دل جو عاشقِ دل سوز کا چلے *
غزل
٭………شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ
لیتے ہی دل جو عاشقِ دل سوز کا چلے
تم آگ لینے آئے تھے کیا آئے کیا چلے
بل بے غرورِ حسن ! زمیں پر نہ رکھے پائوں
مانندِ آفتاب وہ بے نقش پا چلے
کیا لے چلے گلی سے تری ہم کہ جوں نسیم
آئے تھے سر پہ خاک اُڑانے، اڑا چلے
آلودہ چشم میں نہ ہوئی سُرمہ سے نگاہ
دیکھا، جہاں سے صاف ہی اہلِ صفا چلے
ساتھ اپنے لے کے تو سنِ عمرِ رواں کو آہ
ہم اس سرائے دہر میں کیا آئے کیا چلے
فکرِ قناعت ان کو میسّر ہوئی کہاں
دنیا سے دل میں لے کے جو حرص و ہوا چلے
اے ذوقؔ ،ہے غضب نگہِ یار ، الحفیظ
وہ کیا بچے کہ جس پہ یہ تیرِ قضا چلے
|