* آنکھیں مری تلووں سے وہ مَل جائے تو *
غزل
٭………شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ
آنکھیں مری تلووں سے وہ مَل جائے تو اچھا
ہے حسرتِ پا بوس، نکل جائے تو اچھا
جوچشم کہ بے نم ہو، وہ ہو کور تو بہتر
جو دل کہ ہو بے داغ، وہ جل جائے تو اچھا
فرقت میں تری، تارِ نفس سینے میں مرے
کانٹا سا کھٹکتا ہے ، نکل جائے تو اچھا
وہ صبح کو آئے، تو کروں باتوں میں دو پہر
اور چاہوں کہ دن تھوڑا سا ڈھل جائے تو اچھا
ڈھل جائے جو دن بھی تو اسی طرح کروں شام
اور چاہوں کہ گر آج سے کل جائے تو اچھا
جب کل ہو تو پھر وہی کروں کل کی طرح سے
گر آج کا دن بھی یوں ہی ٹل جائے تو اچھا
القصّہ نہیں چاہتا میں، جائے وہ یاں سے
دل اُس کا یہیں گرچہ بہل جائے تو اچھا
***** |