تیزاب کی آمیزش یا زہر ہے پانی میں
مرجھانے لگے پودے کیوں عہدِ جوانی میں
تنکا ہوں کہ بہہ جائوں برسات کے پانی میں
قائم ہوں چٹانوں سا دریا کی روانی میں
اُس پر ہی نہ جانے کیوں ہم جان لُٹا بیٹھے
معلوم نہیں کیا تھا اُس دشمنِ جانی میں
اشعار میں اب جدّت آئے گی نظر ان کو
اب ربط نہیں کوئی الفاظ و معانی میں
اُن کے بھی فسانے میں کردار مِرا روشن
گم گشتہ نہیں ہوں میں اپنی ہی کہانی میں
بیدار بھی رہنے کا ہے دور یہی راغبؔؔ
غفلت کی خماری بھی چڑھتی ہے جوانی میں
جون ۲۰۱۳ئ غیر طرحی
***********************