* نہ جانے کس طرف سے اس ندی کی دھار چلت *
غزل
نہ جانے کس طرف سے اس ندی کی دھار چلتی ہے
کہیں چھت تیرتی ہے اورکہیں دیوار چلتی ہے
ہمارے پاس کی ہے زندگی کچھ اس طرح برہم
نسیمِ سحر بھی چلتی ہے تو بیزار چلتی ہے
جنونِ عشق اپنی حد سے جب آگے نکل جائے
توگویا اُس جگہ پھر حُسن کی سرکار چلتی ہے
ستم ہے یا یہی دستور ہے اُن کی محبت کا
’’اِدھر میں سر اٹھاتا ہوں اُدھر تلوار چلتی ہے‘‘
میں تھک کر جب کسی دیوار کے سائے میں سوتا ہوں
کٹیلی دھوپ بادل اوڑھ کر سرشار چلتی ہے
ادب سے سرجھکانا شرط ہے دیدار کی خاطر
سنا ہے تیری محفل صورتِ دربار چلتی ہے
اے اعظم حالِ دل اپنا بیاں کرنا بہت مشکل
مسائل میں الجھ کر زندگی دشوار چلتی ہے
ڈاکٹر) امام اعظم)
Riginol Director
M.A.NU, Darbhanga (Bihar)
Mob: 9431085816
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|