* یاد کی شمع اِک جلائی ہے *
یاد کی شمع اِک جلائی ہے
پھر وہی درد ہے تنہائی ہے
دل میں پھر یاد کی آہیں گونجیں
کیوں میں سمجھا‘ کہ یہ شہنائی ہے
ہر جگہ خود ہی بلاتا ہے مجھے
اور کہتا ہے تُو ہرجائی ہے
غم سے پہلے بھی فراغت کب تھی!
اب تو اُلفت سے شناسائی ہے
مل گیا آج ہوا کو رستہ
تیری خوشبو مرے گھر آئی ہے
درد میں ایک بھی آنسو نہ بہا
میں نے اِس درجہ سزا پائی ہے
لوٹ آیا تیرے در پہ عامی
ذرا دیکھو‘ وہی سودائی ہے
|