* دریچوں سے کبھی بے ساختہ جھانکوں *
دریچوں سے کبھی بے ساختہ جھانکوں
بنا آہٹ کے دروازوں کو کھولوں
کبھی یونہی پلٹ کر راہ دیکھوں
کہ جیسے کوئی پیچھے آرہا ہے
مرے چاروں طرف سرگوشیاں ہیں
جھلک دیتی ہوئی کتنی شبیہیں
مرے آگے، میرے پیچھے سے گزریں
میں چونکوں، سانس روکوں ، کانپ جاؤں
مگر اگلے ہی پل چاروں طرف سے
حقیقت کے اندھیرے لوٹ آئیں
مجھے جھنجھوڑ کر باور کرائیں
ادھر تو دور تک کوئی نہیں ہے!
ابھی آہٹ تو ابھری تھی شجر سے
کوئی پنچھی تھا دروازے کے پیچھے
زمیں پر رنگ برسے تھے گھٹا سے
کسی تتلی کے پر الجھے ہوا سے
دریچے سے کوئی جھانکا تھا تارا
یہاں کب کوئی آیا تھا ہمارا!
|