* کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار *
غزل
٭………انشاء اللہ خاں انشاء
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
نہ چھیڑاے نکہتِ بادی راہ لگ اپنی
تجھے اٹھکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بے زار بیٹھے ہیں
غرض کچھ اور دھن میں اس گھڑی میخوار بیٹھے ہیں
بسانِ نقش پائے رہرواں کوئے تمنا میں
نہیں اٹھنے کی طاقت کیا کریں لاچار بیٹھے ہیں
یہ اپنی چال ہے افتادگی سے اب کہ پہروں تک
نظر آیا جہاں پر سایہ دیوار بیٹھے ہیں
کہاں صبر و تحمل، آہ، ننگ و نام کیا شے ہے
یہاں روپیٹ کر ان سب کو ہم یکبار بیٹھے ہیں
بھلا گردش فلک کی چین دیتی ہے کسے انشاؔ
غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں
|