* لہرا دیا صبا نے جو کل سبزہ زار کو *
غزل
٭………انشاء اللہ خاں انشاء
لہرا دیا صبا نے جو کل سبزہ زار کو
ووہیں گھٹا نے گھیر لیا چشمہ سار کو
جوش و خروش رعد نے یہ دھوم دھام کی
ہر گز کوئی کسی کی نہ پہنچا پکار کو
کچھ لُکّہ ہا ابرِ سفید و سیاہ پھر
مستانہ جھوم جھوم چلے کوہسار کو
شادابیٔ ہسوا نے یہ چاہا کہ کیجئے
محبوس، کوچۂ رگِ گل میں بہار کو
اڑنے لگیں ملار کی تانیں فلک تلک
سازندے چھیڑنے لگے بین و ستار کو
ہم مشرب اپنے چند جواں تھے، سونہر پر
تشریف لے گئے بطِ مئے کے شکار کو
بولی یہ عندلیب کہ باقی نہ چھوڑیو
ایسے سمے میں خواہش بوس و کنار کو
|