* زباں پر کچھ ہے دل میں کچھ، نہیں ایم *
غزل
زباں پر کچھ ہے دل میں کچھ، نہیں ایماں درخشندہ
منافق کی یہ دو رنگی نہیں رہتی ہے پائندہ
نہ اترا شمع محفل دو گھڑی کی روشنی لے کر
سحر تک تیری لَو کھو دے گی اپنا حسنِ تابندہ
ادائوں میں ہے خمداری ، نگاہوں میں ہے غماضی
تمہاری کج روی سے تو کئی طوفان ہیں زندہ
حقیقت میں بیاں کردوں تو ہوگی اُن کی رسوائی
زباں اپنی نہ کھولوں گر تو ہوتا ہوں میں شرمندہ
مجھے منظور ہے غم اس لئے شکوہ نہیں کرتا
شکایت میں اگر کرتا نہ ہوتا عشق پائندہ
بھلا کیوں کر نہ ہو برہم نظامِ گلشنِ ہستی
چمن میں باغباں کے روپ میں صیاد ہے زندہ
خطا پر اپنی نادم ہو ہر اک انساں کو ہے لازم
مگر یہ بے حسی ہے رشک کب ہوتا ہے شرمندہ
عیسیٰ رشک
83/3, Maulana Salim Road, Nai basti
Kamarhatti, Kolkata-700058
Mob: 9332415315
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|