یہ نخل تاک نیں میکش ترے جب مست ہوتے ہیں
چمن میں اینڈتے انگڑائیاں لے لے کے سوتے ہیں
ترے عشاق کار دست کو کرتے ہیں آنکھوں سے
گہر آنسو کے کس صفت سے مژگاں میں پروتے ہیں
سفیدی کچھ جو تھی سو بھی مٹی ہیہات رونے سے
سیاہی نامۂ اعمال کی کیا خاک دھوتے ہیں
گئے گزرے نہیں ہیں عشقؔ دیوانوں سے کچھ ہم بھی
وہ اپنی سدھ بسرتے ہوویں گے ہم خود کو کھوتے ہیں
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸