* کیا جانے کس آنے والے دور کی یہ تیار *
غزل
کیا جانے کس آنے والے دور کی یہ تیاری ہے
حال کا لمحہ لمحہ ماضی کی صدیوں پر بھاری ہے
فصلِ بہاراں کے چہرے پر جس کے سبب گل کاری ہے
درد سوز وہی ہر موجِ خزاں میں جاری ساری ہے
اپنا جینا راز ہوا جاتا ہے کیوں اے اہلِ چمن!
لوگ اسے مجبوری جانیں ہم سمجھیں مختاری ہے
مستقبل سے یہ مایوسی ماضی سے یہ امید
جس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ ایسی بیماری ہے
جشن شبی یہ کیا ہے اے ساقی محفل کچھ تو بتا
محفل کی محفل پر کیوں اک بیہوشی کی طاری ہے
جاگنے والو روزِ ازل سے ہم تو نیند کے ماتے ہیں
تم ہی کہو کچھ اپنا عالم خواب ہے یا بیداری ہے
کم نہ سمجھ وجدان کو پیارے عقل پہ اتنا ناز نہ کر
اس کا بھروسہ کر نہ زیادہ یہ تلوار دو دھاری ہے
اس نقادسے مل کر جی کچھ خوش نہ ہو آزاد کہ جو
علم کا بوجھ لئے پھرتا ہے ذوق سخن سے عاری ہے
٭٭٭
|