* تمام ارض و سما کو گواہ کرتے ہوئے *
تمام ارض و سما کو گواہ کرتے ہوئے
کوئی گزر گیا مجھ پر نگاہ کرتے ہوئے
جو بوجھ اپنے نہیں وہ بھی ڈھونے پڑتے ہیں
اس آب و خاک سے مجھ کو نباہ کرتے ہوئے
میں چُپ کھڑا ہوں یہاں اور گزرتا جاتا ہے
کوئی سوال، کوئی انتباہ، کرتے ہوئے
جہانِ اجر و سزا میں بجُز دل آزاری
میں سوچتا نہیں کوئی گناہ کرتے ہوئے
جو حرف چاہتا ہوں، لکھ نہیں سکا اب تک
زمانہ ہو گیا کاغذ سیاہ کرتے ہوئے
دماغ نے کہاں مانی کبھی فقیر کی بات
یہ دل ڈرا تھا اے بادشاہ کرتے ہوئے
اب اس پہ ترکِ مراسم کے وقت غور نہ کر
جو بات سوچنی تھی رسم و راہ کرتے ہوئے
جمال احسانی
|