* کبریائی تری بد نام ہوئی جاتی ہے *
غزل
٭………جمیل مظہری
کبریائی تری بد نام ہوئی جاتی ہے
بندگی تجھ پہ اک الزام ہوئی جاتی ہے
حُسن بانیہمہ پندار بلندی کیا ہے
اک تجلی جو لب بام ہوئی جاتی ہے
تیری بیگانہ نگاہی کا یہ انجام اے دوست
کہ محبت ہوس خام ہوئی جاتی ہے
اس موسم کی نہیں قید کہ اب آپ کی یاد
فاتح گردش ایام ہوئی جاتی ہے
تھا محبت کے لئے موت کا ارماں مخصوص
مگر اب تو یہ ہوسِ عام ہوئی جاتی ہے
اے دعاء مانگنے والے تری ہر دم کی دعا
اب خدا کے لئے دشنام ہوئی جاتی ہے
کارواں آہی گیا تابہ سواد تشکیک
منزل اب زحمت یک گام ہوئی جاتی ہے
اب تو شرمائے تری پردہ نشینی کا غرور
بندگی فتنہ اصنام ہوئی جاتی ہے
اک وہ ابہام جو حسرت کشِ تفصیل رہا
اک وہ تفصیل جو ابہام ہوئی جاتی ہے
جس پہ تہذیب نے رکھی تھی حیا کی تہمت
وہ ادا اور بھی بدنام ہوئی جاتی ہے
مژدہ اے ذوق سخن جنبش لبہائے جمیلؔ
جنبشِ پردہ الہام ہوئی جاتی ہے
٭٭٭٭
|