* عشق وارفتئہ غم رکھتے ہیں *
عشق وارفتئہ غم رکھتے ہیں
عزم رسوائی جم رکھتے ہیں
آج بھی صنعتِ آذر کے حریف
آستینوں میں صنم رکھتے ہیں
دیکھنا اے نگاہِ اشک آلود
ہم بھی کچھ اپنا بھرم رکھتے ہیں
مژدہ اے حلقئہ زنجیرِ جنوں
دشتِ وحشت میں قدم رکھتے ہیں
کتنے سادہ ہیں یہ عشّاق جمیل
دل سے امیدِ کرم رکھتے ہیں
|