* گھوڑے کو ناتھو، بیل کے منہ کو لگام *
سلام دو
گھوڑے کو ناتھو، بیل کے منہ کو لگام دو
جس کا ہے جو مقام اُسے الٹا مقام دو
تشبیہ و استعارے کی تم ٹانگ توڑ دو
شامِ اودھ کو صبحِ بنارس کا نام دو
تحفہ دیاہے اس نے زکام و بخار کا
تم اس کے سر کے درد کو ہمدرد بام دو
دن میں تو محتسب کا کریں گے وہ رول ادا
پردے میں شب کے شیخ کو مالِ حرام دو
’’ مئے سے غرض نشاط ہے کس رو سیاہ کو‘‘
مئے پر اگر ہے روک تو تاڑی کا جام دو
پھولوں کو کاٹ چھانٹ کے بوئے گا وہ ببول
الّو کے ہاتھ میں نہ چمن کا نظام دو
فریاد کر رہے ہیں یہ ہارے ہوئے رقیب
ان کی گذر بسر کے لئے کوئی کام دو
کھولا ہے اک حریف نے قارورہ کا رنر
اب دوسرے حریف کو جو کر کا کام دو
کُند استرا سے وہ نہ حجامت بنا دے پھر
یارو، سروں کو اب نہ بدستِ حجام دو
سرکار سے عوام کی صرف ایک مانگ ہے
ننگو ں کو کپڑے، بھوکوں کو طشتِ طعام دو
بدلی نہیں ہے اب بھی غلامانہ ذہنیت
دفتر میں بولتے ہیں یہ صاحب سلام دو
ہر لب پہ قہقہوں کا سمندر امنڈ پڑے
جوہر خموش بزم کو ایسا کلام دو
٭٭٭
|