* بھلا سسرال کیسے نہ ہوں دلداریاں م® *
زبا ں میری
بھلا سسرال کیسے نہ ہوں دلداریاں میری
خدا کے فضل سے ہیں ایک درجن سالیاں میری
اُدھر بیگم کی فرمائش کہ لا دو ساڑیاں میری
اِدھر بدرنگ ہوتی جا رہی ہیں ٹائیاں میری
گرانی کا بھلا ہو، اُڑ گئے ہیں ہوش کے پُرزے
اُڑیں گی جلد ہی عقل و خرد کی دھجیاں میری
ہوا ہے گُم جو بٹوا، شک ہے اُن کو گھر کے لوگوں پر
چبا ڈالیں گی شاید آج بیگم ہڈیاں میری
پہنتا آرہا ہوں پائجامہ ایک مدت سے
پہن لیتی ہیں وہ سایہ کے بدلے لنگیاں میری
رہا کرتا ہوں چُپ، ان کی زباں قینچی سی چلتی ہے
نہیں میری زباں ان کی، نہیں ان کی زباں میری
یہ ہیں وہ لوگ جو مارے گئے راشن کے چکر میں
پسند آئیں گی جوہرکیا انہیں تُک بندیاں میری
٭٭٭
|