* بچہ ہوا ہے ساتواں، بچی ہوئی نہیں *
آدمی نہیں
بچہ ہوا ہے ساتواں، بچی ہوئی نہیں
ان کو خوشی ہے بچے کی مجھ کو خوشی نہیں
جس خوش نصیب کی ابھی شادی ہوئی نہیں
میری طرح عذاب میں وہ آدمی نہیں
میری وفا کی ٹارچ جلے بھی تو کس طرح
اس میں نگاہِ ناز کی جب بیٹری نہیں
جلتا ہے سیروں خون تو ہوتی ہے اک غزل
یاروں یہ شاعری ہے کوئی وائری نہیں
اوروں کا جو خیال ہو میرا ہے یہ خیال
جو دل کو گُد گُدا نہ سکے شاعری نہیں
جس دن چنائو ہار کے بھاگے تھے چودھری
اُس دن سے ان کی شکل نظر آسکی نہیں
مسجد میں کیسے شیخ کو آتی ہیں ہچکیاں
ساقی نے ٹیلی پیتھی سے دعوت تو دی نہیں
کیوں کاروبار تیل کا کھولا ہے شہر میں
تم نے تو فارسی میں جُمّن پڑھی نہیں
اُس امتحاں کو کیوں نہ کریں ہم تخڑبخڑ
چوری جس امتحان میں کمپلسری نہیں
جوہر کی پُر مزاح غزل سن کے بزم میں
جو کھلکھلا کے ہنس نہ سکے آدمی نہیں
٭٭٭
|