* خدا جانے مجھے کس جرم کی بیگم سزا دے *
دے ہے
خدا جانے مجھے کس جرم کی بیگم سزا دے ہے
کسی شب دیر سے آیا تو بھوکا ہی سلا دے ہے
چھپائوں عشق دایا کا میں کیسے آپ ہی کہئے
مِری ہر بات گڈ واپنی امّی کو بتا دے ہے
کبھی توہین ہو جاتی ہے داڑھی کی تو یہ واعظ
چڑھاکر رنگِ مذہب دو فریقوں کو لڑا دے ہے
سنا ہے دال چولہے پر جلاتی ہے کوئی عورت
مری بیوی تو اے یارو مِرا دل ہی جلا دے ہے
مری سالی بڑی چنچل ہے ، جب سسرال جاتا ہوں
کبھی جوتا چُرا لے ہے، کبھی چھاتا چھُپا دے ہے
یہی کہتے ہیں سننے والے ہنس ہنس کر سرِ محفل
ہر اِک روتے ہوئے انسان کو جوہر ہنسا دے ہے
٭٭٭
|