* نہ اَشک آنکه میں باقی نہ پیاس ہو *
غزل
نہ اَشک آنکه میں باقی نہ پیاس ہوتی ہے
وہ بهی اِس بات سے میری اداس ہوتی ہے
ہَوا کے ساته بَهٹکتا ہوں اِس تَجَسُس میں
کہاں کی آب و ہَوا مُجه کو راس ہوتی ہے
وہ ضِد ہے یا کہ اَنا ہے جو مُسکراتی ہے
اگرچہ شام بهی اُسکی اُداس ہوتی ہے
بُجهائے کِس طرح تِشنہ لَبی کو اشکوں سے
وہ مُجه سے سیکه لے جِسکو بهی پیاس ہوتی ہے
میں اِس لِئے کبهی فُرقت کا غم نہیں کرتا
کہ اُن سے خُواب میں مِلنے کی آس ہوتی ہے
رَقیب سب میرے ہَم غَم ہیں دوستوں سے ہیں
ہے دوستی وہی جو غَم شناس ہوتی ہے
تیرے خیال سے روشن شبِ فِراق میری
ہے ایک بُوند بهی ساغر جو پیاس ہوتی ہے
حیآت وَصلِ مُحبّت کی تُو خوشی نہ منا
زمانے بهر کی نَظر بے لِباس ہوتی ہے
جاوید حیآت
|