* عہدِ وفا کے بعد پهر آرام نہ مِل *
غزل
عہدِ وفا کے بعد پهر آرام نہ مِلا
صُبحَ کو گَر مِلا تو سرِ شام نہ مِلا
تِشنہ لبی کو اَشک بهی آنکهوں سے نہ مِلے
ساقی کی بزم میں بهی کوئ جام نہ مِلا
عہدِ وفا کو سب نے دیا خود کُشی کا نام
قا تِل کو میرے قتل کا اِلظام نہ مِلا
اُسکی نظر کے تِیر سے بچکر گیا ہے کون
ہے کون جِسے موت کا پیغام نہ مِلا
مشہور ہوئے اور سِتم کر کے سِتمگر
احلِ جُنوں کو ظرف کا اِنعام نہ مِلا
رُسوا کیا مُجهے ہی فقط اُسنے بزم میں
مہفِل میں کوئ دوسرا بدنام نہ مِلا
الفت میں میری موت کو سمجها وہ اِنتہا
مِٹُی کو میرا جِسم مِلا نام نہ مِلا
بانٹے حیآت پهول مُحبّت کے ہر طرف
بس اِسکے سِوا اور ہمیں کام نہ مِل
|