* رات کی زلفیں بھیگی بھیگی اور عالم *
غزل
رات کی زلفیں بھیگی بھیگی اور عالم تنہائی کا
کتنے درد جگادیتا ہے اک جھونکا پروائی کا
اڑتے لمحوں کے دامن میں تیری یاد کی خشبو ہے
پچھلی رات کا چاند ہے یا ہے عکس تری انگڑائی کا
کب سے نہ جانے گلیوں گلیوں سائے کی صورت پھرتے ہیں
کس سے دل کی بات کریں ہم شہر ہے اس ہر جائی کا
عشق ہماری بربادی کو دل سے دعائیں دیتا ہے
ہم سے پہلے اتنا روشن نام نہ تھا رسوائی کا
شعر ہمارے سن کر اکثر دل وال رودیتے ہیں
ہم بھی لئے پھرتے ہیں دل میں درد کسی شہنائی کا
تم ہو کلیم عجب دیوا نے بات انوکھی کر تے ہو
چاہ کا بھی ارمان ہے دل میں خوف بھی ہے رسوائی کا
**** |