غزل
صحرا بسایا جائے گا، ’’شہرایا‘‘جائے گا
کس کس لباس میں اسے ’’نقشایا‘‘ جائے گا
ساقی نہ دے شراب، مئے ناب کی جگہ
کیا اور آب تلخ کو ’’تلخایا‘‘ جائے گا
اس کی توآگ آب ہے اور آب آگ ہے
گنجینۂ خیال ہے، ’’فکرایا‘‘ جائے گا
موجو!نفس نفس میں یہ کس نے بھرا ہے زہر
کب تک ہواے شہر کو ’’زہرایا‘‘جائے گا
اخترؔ، سخن میں کون سی تشکیل کر چلے!
تاریخ شعریات میں ’’لفظایا‘‘ جائے گا
****