غزل
یہ برستی آگ، یہ شعلہ دل بے تاب کا
کاش ہوتا موسم گرما میں گھر برفاب کا
کالے کالے بادلوں سے جھانکتی تھیں بجلیاں
شور ہے ساری زمیں پر جلوۂ ’’قوساب‘‘کا
رات بھر پلکوں سے ہم کانٹے ہی چنتے رہ گئے
یہ تھا عالم ’’گل محل‘‘ کے بستر کمخواب کا
منزلیں ہی ڈھونڈتی پھرتی ہیں خود اس کے قدم
چکھ لیا جس نے مزہ اس دور میں’’ہفتاب‘‘کا
دور میزائل میں اخترؔ آدمی روبوٹ ہے
کچھ اثر پڑتا نہیں اس پر کسی زہراب کا
****