غزل
لطف اٹھاناتھا مجھے اے زندگی ـ’’ہفتاب‘‘ کا
چکھ لیا مثر گانِ شبنم نے مزہ ’’زہر اب‘‘ کا
پر توِ معراج سے روشن ہوا تمثالِ جاں
عکس ہے ہر چیز پر خورشید عالم تاب کا
قطرہء شبنم میں اک آئینئہ تمثال ہے
یہ کرشمہ ہے کسی عکسِ مئے تیزاب کا
سرخ بادہ سے کہاں سر سبز ہے رنگ سبو
جام آتش پی رہاہوں عشق کے خونناب کا
اے خدا کیسے سنبھالیں کشتیِ گرداب کو
موج زن دریاے سرکش ہے رخِ ’’موجاب‘‘ کا
منعکس ہوتاہے لیکن منعطف ہوتا نہیں
داغ ہے آئینۂ بازار پر ’’زنگاب‘‘ کا
تلخ گوئی، تلخ روئی، تلخ کامی میں کلیمؔ
جام آتش پی رہا ہوں ان د نوں ’’ تلخاب ‘‘ کا
********