غزل
لفظوں کو توڑ پھوڑ کے قابل ہوئے ہیں آپ
عالم سمجھ رہے ہیں کہ جاہل ہوئے ہیں آپ
یادوں کی زعفران ہے کشمیر کی طرح
جب سے ہماری زیست میں داخل ہوئے ہیں آپ
یہ ابتداے عشق ہے، کیا کچھ بیاں کریں
اس شور کی طرف ابھی مائل ہوئے ہیں آپ
مقتول یوں نہ ہوتا رفاقت کا سلسلہ
قاتل ہوئے ہیں ہم کبھی قاتل ہوئے ہیں آپ
ہچکولے کھاتی ناو کو گرداب کیا کرے
طوفان ومدوجزر میں ساحل ہوئے ہیں آپ
سب کچھ ہے اس کے پاس مگر دل نہیں ہے دوست!
اخترؔ یہ کس امیر کے سائل ہوئے ہیں آپ
*****