غزل
اب تیری محبت میں ہے کس بات کا بچھّو
اس دل کو ڈراتاہے ملاقات کا بچھّو
ہرخواب سیہ پوش ہوا قوسِ قزح کا
وہ زہر سے معمور ہے حالات کا بچھّو
ہم اس پہ لٹاتے رہے بے لوث محبت
وہ دل میں چھپائے ہے مفادات کا بچھّو
اتنا بھی رخ آئنہ بے آب نہ ہوتا
ڈستا ہے کبھی دن، تو کبھی رات کا بچھّو
سوزش تھا، چبھن تھا، تو کبھی شعلہ شبی تھا
کیا بولوں، کہ کس رنگ میں تھا رات کا بچھّو
کس کس کی مگر لہر اٹھاؤں دم بستر!
ڈستی ہے کبھی رات، کبھی رات کا بچھّو
کچھ لہر سی اٹھتی ہے مرے ذہن میں اخترؔ
جب مارتا ہے ڈنک خیالات کا بچھّو
****