غزل
شعلہ بن کر لہک رہا ہے کوئی
کتنا اندر سے پک رہا ہے کوئی
پھر صدا آرہی ہے ’’شوخ صفت‘‘
دل کے اندر چہک رہا ہے کوئی
خوشبوؤں سے مہک رہا ہے بدن
عرق گل چھڑک رہا ہے کوئی
چاندنی موج زن ہے آنکھوں میں
چاند بن کر چمک رہا ہے کوئی
جسم کندن سا ہوتا جاتا ہے
دل میں گویا دہک رہا ہے کوئی
بے خبر دل مچل اٹھا اخترؔ
بے تحاشہ لپک رہا ہے کوئی
****