* کلی اداس ہے، کیوں پھول سوکھ جاتا ہ *
غزل
کلی اداس ہے، کیوں پھول سوکھ جاتا ہے
ہواکہ قطرۂ شبنم اسے جلاتا ہے
کبھی رلاتا ہے آنسو،کبھی ہنساتا ہے
مجھے خوشی ہے کہ ہمدم مجھے ستاتا ہے
غبار جھاڑتا ہے، داغ پونچھتا ہے وہ
مرا وجود گناہوں کو یوں مٹاتا ہے
ہواے آب کہاں تک بجھائے گی اس کو
ہمارا شہر تو اب آگ میں نہاتا ہے
کلی ہے، پھول ہے، کمسن ہے ہر ادا اُس کی
کہ انگلیوں کو وہ دانتوں تلے دباتا ہے
غموں کے بحر میں دل ڈوبتا نہیں اخترؔ!
پر اُس کے قطرئہ آنسو میں ڈوب جاتا ہے
**** |