غزل
سرخی لبوں کی چھین لے اور پیاس رہنے دے
کچھ دیر کے لیے مجھے حساس رہنے دے
خون جگر نکال لے، پانی نچوڑ لے
لیکن متاع دل کو مرے پاس رہنے دے
یہ شاعر غزل کی متاع لطیف ہے
احساس کے دیار میں احساس رہنے دے
گزرے گی پھر بہار اسی راہ سے رقیب!
سوکھی ہوئی زمین پہ کچھ گھاس رہنے دے
اخترؔ ہوا سمجھ کے اڑا تو نہ اب اسے
خوش رنگ ایک پھول ہے، بو باس رہنے دے
****