غزل
نمِ گل کو خزاں کی شاخ پر ہم دیکھ لیتے ہیں
تری چاہت کی پلکوں پر بھی شبنم دیکھ لیتے ہیں
نظر سے آسماں کو دیکھنا بھی کیا ضروری ہے؟
تری زلفوں میں جانم کہکشاں ہم دیکھ لیتے ہیں
تجھے معلوم کیا ناداں کہ الفت کس کو کہتے ہیں
محبت کرنے والے ڈھیر سا غم دیکھ لیتے ہیں
مخالف بادِ صرصر میں ذرا لہرانے دو زلفیں
اسی میں ہم وطن کا اپنے پرچم دیکھ لیتے ہیں
تخیّل کیا کسی شاہین کی بیدار آنکھیں ہیں!
کہ بند آ نکھوں سے اختر ؔکیا نہیں ہم دیکھ لیتے ہیں
*********