* اجنبی سی لگ رہی ہے جانی پہچانی ہوا *
غزل
اجنبی سی لگ رہی ہے جانی پہچانی ہوا
چل رہی ہے شہر میں یہ کیسی دیوانی ہوا
نذرِ آتش ہو رہے ہیں پھر غریبوں کے مکاں
پھر چلی ہے شہر میں نفرت کی طوفانی ہوا
وادیوں میں ہر طرف آتا ہے سناٹا نظر
پھیر لیتی ہے جب اپنا رخ کہستانی ہوا
اک ذرا سی دیر میں انساں کا مٹ جائے وجود
وقت پر حاصل نہ ہو اُس کو اگر پانی ہوا
مطمئن ہے گلشنِ ہستی میں جب میرا ضمیر
مجھ کو بہکائے گی کیسے کوئی انجانی ہوا
گلستاں تبدیلیٔ موسم کی دیتا ہے خبر
کر رہی ہے آج کانٹوں پر گل افشانی ہوا
ہوکے حائل کس لئے راہِ ترقی میں کمال
مانگتی ہے مجھ سے محنت اور قربانی ہوا
کمال جعفری
R-282/3, Gali No-7, Zakir Nagar, Okhla
New Delhi-110025
Mob: 9818569466
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|