* کبھی جو نکہتِ زلفِ نگار آئی ہے *
کبھی جو نکہتِ زلفِ نگار آئی ہے
فضائے مردئہ دل میں بہار آئی ہے
ضرور تیری گلی سے گزر ہوا ہو گا
کہ آج بادِ صبا بے قرار آئی ہے
کوئی دماغ تصور بھی جن کا کر نہ سکے
یہ جانِ زار وہ لمحے گزار آئی ہے
خدا گواہ کہ ان کے فراق میں کوثر
جو سانس آئی ہے وہ سوگوار آئی ہے
|